ملک میں روز بروز سیاسی و معاشی بحران گہرا ہوتا جارہا ہے،اس بحرانی حالات میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی جانب سے دو یقین دہانیاں مختلف انداز میں قوم کے سامنے آئی ہیں،یہ دونوں یقین دہانیاں کئی اعتبار سے حوصلہ افزا ہیں اور ملک و قوم کے مفاد میں ان کے مثبت نتائج متوقع ہیں، ایک یقین دہانی تاجروں کے وفد سے ملاقات کی صورت میں اور دوسری سیاسی نوعیت کی ایک ملاقات سے انکار کی صورت میں سامنے آئی ہے، دونوں انواع میں پیغام نمایاں ہے کہ پاک فوج ملک کو معیشت کے بحرانوں سمیت سنگین مسائل کی دلدل سے نکالنے کی کوششوں کی حمایت کرتی ہے، مگر وہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔
اس میں شک نہیں کہ سیاسی قیادت کو اپنے جھگڑے اور مسائل خود ہی حل کرنے چاہئیں، لیکن معیشت اور معیشت سے جڑے مسائل جتنے سول حکومت کے لئے اہم ہیں، اْتنے ہی فوج کے لئے بھی اہمیت رکھتے ہیں،معیشت کاتعلق پاکستانی عوام، حکومت کے علاوہ ریاست اور سیکورٹی سے بھی ہے،اس لیے ملکی معیشت پر نظر رکھتے ہوئے اپناکردار ادا کر نا ضروری ہو جاتا ہے، لیکن سیاست میں عدم مداخلت کا فیصلہ برقرار کھا جارہا ہے،سیاسی قوتوں کے لئے بھی مناسب ترین صورت یہی ہے کہ وہ اپنے نظریاتی اور دیگر اختلافات مل بیٹھ کر حل کریں، ملکی سیاسی تاریخ میں کئی ایسے مواقع آتے رہے ہیں کہ ب مکمل ڈیڈ لاک کی کیفیت محسوس ہوتی تھی، مگر مسلسل رابطوں اور بات چیت سے مسائل کا قابل قبول حل نکلتا رہا ہے۔
اس وقت بھی ملکی سیاست میں دیڈ لاک کی سی صورتحال ہے، صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نوے دن میں نئے انتخابات کرانا آئینی ذمے داری ہے، لیکن اس ذمے داری قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے، عدالت عظمیٰ نے ازخود نوٹس لے کر انتخابات کرانے کا حکم دے دیا ہے،پنجاب میں صدر نے الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد انتخاب کی تاریخ اور نظام الاوقات کا اعلان کردیا ہے،جبکہ گورنر کے پی کے اور الیکشن کمیشن اعلان میں ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں، عدالت عظمیٰ کے حکم کے باوجود وفاقی حکومت کے حلقے انتخابات سے کھل کر گریز کررہے ہیں،جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے لاہور سے انتخابی مہم شروع کرنے کے لیے ریلی نکالنے کا اعلان کردیا،لیکن اس ریلی کے شرکا ء پر صوبائی حکومت نے جو ظلم و ستم کیاہے،وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔
یہ صورت حال ظاہر کررہی ہے کہ اتحادی حکومت ہر حال میں انتخابات سے خوف زدہ ہے، ایک طرف سیاسی تصادم کی وجہ سے ملک کی فضا میں ہیجان اور انتشار بڑھتا جارہا ہے تودوسری جانب سیاسی بحران کے باعث معاشی بربادی کی وجہ سے عام شہری کے لیے روزانہ کی بنیاد پر زندگی سخت ہوتی جارہی ہے،حکومت کا سارا زور اس بات پر ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر دستخط ہوجائیں، سیاسی فضا میں پاکستان کے دیوالیہ اور نادہند ہوجانے کا خطرہ سر پر لٹکا ہوا ہے، صرف ایک ارب ڈالر کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے ہر حکم مانا جارہا ہے، وزیر خزانہ کی جانب سے بار بار یقین دہانی کرائی جارہی ہے کہ اس ہفتے معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے اور ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل جائے گا،لیکن اس معاشی بحران نے غریب مزدوروں اور کسانوں سے لے کر بڑے صنعت کاروں تک کو پہلے سے ہی بے انتہا متاثر کر کے رکھ دیاہے۔
اگر ہم ڈیفالٹ سے بچ بھی گئے تو بعد میں کیا ہوگا، اس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے، معاشی ایمرجنسی کی خبریں بھی زبان زد عام ہیں،جبکہ حکومت کوشش میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح انتخابات سے راہ فرار اختیار کی جائے، اس پس منظر میں دس بڑے صنعت کاروں کی آرمی چیف سے ملاقات قبل غور ہے، اس ملاقات میں جہاں وزیر خزانہ نے ایک بار پھر یقین دلایا ہے کہ ملک میں مشکل حالات جلد ہی ختم ہوجائیں گے، آرمی چیف نے بھی اپنا موقف دہرایا ہے کہ فوج غیر جانبدار ہوچکی ہے،سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین اپنے تنازعات خود حل کریں، لیکن بزنس کمیونٹی کے نمائندوں سے ملاقات خود تاثر دے رہی ہے کہ اس دعوے پر یقین کرنا مشکل ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ سیاسی قیادت کبھی مقدرر حلقوں کے سہارے کے بغیر چلے نہ ہی چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں، یہ کل بھی سہارے کے متلاشی رہے،یہ اُج بھی انہیں کی جانب دیکھ رہے ہیں،حکمران اتحامقتدر حلقوں کے تعاون سے اقتدار پرقابض رہنا چاہتا ہے،جبکہ اپوزیشن انہیں اقتدار سے ہٹانے کے در پے ہے،دونوں جانب ہی سہاروں کی تلاش میں سیاسی عدم استحکام بڑھتا ہی جارہا ہے، اس سیاسی عد استحکام سے جڑے معاشی زوال کا حل دور تک دکھائی نہیں دیے رہا ہے،مقتدر حلقوں کو سیاست سے دور ضروررہنا چاہئے،مگر سیاسی بحران سے نکالنے کا راستہ بھی نکالنا چاہئے، سیاسی بحران کا حل تلاش کیے بغیر معاشی بحران سے نجات ممکن دکھائی نہیں دیتی ہے،اس لیے سیاسی بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ تو نکالنا ہی پڑے گا!