عموما گھر میں جو روٹی بچ جاتی ہے اسے ٹکڑوں کی شکل میں ایک شاپر میں ڈال دیتے ہیں۔لیکن جب مفت آٹے کی قطاریں دیکھیں تو طبیعت مکدر ہو گئی۔یا اللہ ہمارے اس وطن میں یہ وقت بھی آنا تھا۔آٹے کی بیس کلو کی بوری جو گذشتہ برس بارہ سو روپے کی آتی تھی اب ستائیس سے اٹھائیس سو روپے کی ہو گئی ہے۔دفتر میں اسٹاف ممبرز کی گفتگو سنی۔ایک ممبر کہہ رہا تھا کہ میرے ذمے آٹا لانا ہے ۔مہینے کی پانچ بوری آٹا لاتا ہوں۔اس دفعہ تو ساری تنخواہ آٹے پر خرچ ہو جائے گی۔حکومت کی پالیسیوں کی سمجھ نہیں آرہی۔ایک طرف مفت آٹا تقسیم ہو رہا ہے تو دوسری طرف قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔مفت میں مت تقسیم کریں لیکن قیمت کو کنٹرول کریں۔پشاور میں مفت آٹے کے حصول کے لئیے خواتین کی طویل قطاریں لگی دیکھیں۔دو وقت کی روٹی کے لئے یہ صنف نازک گھنٹوں قطار میں کھڑے ہونے پر مجبور۔بعض مقامات پر تو بد انتظامی کی وجہ سے بھگڈر مچ گئی جس کے نتیجے میں اب تک چار لوگ جان کی بازی ہار گئے ہیں۔کل دیکھا کہ ایک اسٹیڈیم میں گھٹنوں تک پانی کھڑا ہے جبکہ وہیں آٹے کی تقسیم بھی جاری تھی۔خبریں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آنے لگا۔یا اللہ رحم۔بچوں کو سختی سے ڈانٹا کہ روٹی مت ضائع کرو کہ اس کی خاطر لوگ جان تک سے جا رہے ہیں۔دنیا کو دیکھیں تو حالات نئی کروٹ لے رہے ہیں۔برسوں کے دشمن دوست بن رہے ہیں۔ایران اور سعودی عرب کی نظریاتی اور سیاسی مخالفت تھی لیکن بدلتے حالات کے ساتھ انہوں نے اس بے معنی دشمنی کو ختم کر دیا اور چین کی ثالثی میں سفارتی تعلقات بحال کر لئے۔جس کا مقصد دو طرفہ تجارت کو فروغ دینا بھی ہے۔سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان ایک دور اندیش سیاستدان ثابت ہو رہے ہیں۔سعودی عرب جیسے قدامت پسند معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں لا رہے ہیں۔خواتین کے حقوق بحال ہو رہے ہیں انہیں ہر شعبے میں فعال کرنے کے لئیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔وہی سعودی عرب جہاں کچھ عرصہ قبل خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت نہ تھی اب وہاں خواتین جہاز اور ٹرین چلا رہی ہیں۔شام کے ساتھ بھی عرب ممالک کے تعلقات کشیدہ تھے لیکن بشارالاسد کے حالیہ دورہ متحدہ عرب امارات نے ایک مثبت اشارہ دیا ہے کہ جلد ہی ان کے تعلقات بھی بحال ہو جا ئیں گے۔روس اور چین کے ما بین بھی نصف صدی سے زیادہ عرصے تک سیاسی چپقلش رہی لیکن اب چین کے صدر نے روس کا دورہ کیا اور دوطرفہ تعلقات کی بحالی کا عندیہ دیا۔حالات سدا ایک جیسے نہیں رہتے۔لیکن ایک ہم ہیں چاروں جانب ہمسایہ ممالک سے ناراض۔ایران،افغانستان،بھارت سب سے کشیدہ تعلقات۔دہشت گردی کا راگ الاپتے دہائیاں گزر گئیں۔اب تو بین الاقوامی سطح پر جگ ہنسائیی ہو رہی ہے ملک دیوالیہ ہونے کو ہے اور ہم ہیں کہ آپس ہی میں گتھم گتھا ہو رہے ہیں ۔پانچ مہینے ہوئے سیلاب کے بعد سے پاکستانی عوام ڈھائی سو سے تین سو کلو پیاز خریدنے پر مجبور ہے جبکہ واہگہ بارڈر سے چند کلو میٹر دور بیس روپے کلو پیاز دستیاب ہے لیکن جناب ہمارے تعلقات نہیں ان سے،نہ سیاسی نہ تجارتی۔ ہماری عوام بڑی خوددار ہے بھوکی مر جائے گی بھارتی پیاز نہ خریدے گی۔بھارت سے دو طرفہ تعلقات کی بحالی دونوں ممالک کے لئے سود مند ہے چاہے سیاسی ہو یا تجارتی۔ایران بھی ہم سے ناراض ہے جبکہ مشترکہ بارڈر ہونے کی وجہ سے دونوں ملک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ایران سے پھلوں اور پیٹرول کی اسمگلنگ زوروں پر ہے۔اگر حکومت عوام کی بھلائی کا سوچے،تو باہمی تجارت بحال ہو سکتی ہے۔ایرانی مصنوعات شہد، پھل اور سبزیوں کی ہمارے ہاں بڑی مانگ ہے جبکہ پاکستانی مصنوعات خاص کر کپڑے،جوتے،برتن،بجلی کے آلات کی ایران میں بڑی قدر ہے۔افغانستان سے تو ہمیشہ ہی تعلقات کشیدہ رہے۔دونوں ممالک اپنے ملک میں ہونے والی دہشت گردی کا ایکدوسرے کو ذمہ دار گردانتے رہے۔جبکہ لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین گذشتہ چار دہائیوں سے یہاں مقیم ہیں۔ان کی وجہ سے ہماری کمزور معیشت پر بوجھ ہے۔ضروری ہے کہ حالات کو سدھارا جائے تاکہ ہمارے یہ مہاجر بھائی با عزت طریقے سے اپنے وطن لوٹ سکیں پاکستان کو اپنے قریبی دوستوں سے ہی سبق سیکھ لینا چاہیئے بین الاقوامی سطح پر مثبت اقدامات ہمارے اندرونی حالات پر بھی اچھا اثر ڈالیں گے۔میزائیل،ٹینک توپوں کی اہمیت اپنی جگہ لیکن جب ملک ہی ڈوب جائے تو ان ہتھیاروں کا کیا فائدہ۔ملک میں سیاسی استحکام وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیئے کہ وقت کی نزاکت کو سمجھیں۔ملک میں امن اور سیاسی استحکام ہو گا تو بیرون ملک سے بھی سرمایہ کار آئیں گے معیشت مضبوط ہوگی تو عوام خوشحال ہوں گے۔وقت آگیا ہے کہ پرانی روش کو ترک کر کے عملی اقدامات اٹھائیں کھوکھلے نعروں سے کام نہیں چلے گا۔زمانہ کروٹ بدل رہا ہے۔پرانے دشمن اب دوست بن رہے ہیں۔نئے سیاسی بلاک وجود میں آ رہے ہیں۔جنگوں،ہتھیاروں کا وقت گزر گیا۔اب جو معاشی طور پر مضبوط ہو گا وہی دنیا پر حکمرانی کرے گا۔ بقول علامہ اقبال۔
چمکنے والے مسافر! عجب یہ بستی ہے
جو اوج ایک کا ہے، دوسرے کی پستی ہے
اجل ہے لاکھوں ستاروں کی اک ولادتِ مہر
فنا کی نیند مئے زندگی کی مستی ہیوداعِ غنچہ میں ہے
رازِ آفرینشِ گلعدم، عدم ہے کہ آئینہ دارِ ہستی ہے
!سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں