تحریک انصاف کا کیمپ جس تیزی سے خالی ہورہاہے، اس سے ایسا ہی لگتا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے اعلان تک ساری پارٹی ہی ختم کردی جائے گی،حکمران اتحاد اپنے تائیں پورا زور لگا رہے ہیں کہ ایک طرف پی ٹی آئی قیادت کو مائنس کیا جائے تو دوسری طرف پارٹی کی اتنی توڑ پھوڑ کردی جائے کہ انتخابات میں حصہ لینے کے قابل ہی نہ رہے،پی ٹی آئی رہنماتشدد اور چادرو چاردیواری کی پامالی کے خوف کے باعث پارٹی ہی نہیں، سیاست کو بھی خیرآباد کہہ رہے ہیں تو کل کلاں پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کی جرأت کیسے کریں گے،اس کے باوجودتحریک انصاف انتخابی مقابلے میں آتی ہے تو جو کچھ پارٹی کے ساتھ کیا گیا ہے، وہ سب قبل ازانتخابات دھاندلی کے زمرے میں آئے گا،تحریک انصاف ایک بار پھر ایک نئے بیانیہ کے ساتھ نہ صرف سراپہ احتجاج ہو گی،بلکہ نئی حکومت کو چلنے بھی نہیں دیے گی۔
مو جودہ حالات متقاضی ہیں کہ انتخابات سے قبل مذاکرات کادوبارہ آغاز کیا جائے،پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے نہ صرف مذاکرات کی دعوت دی جا رہی ہے، بلکہ ایک اعلی قیادت پر مشتمل مذاکراتی ٹیم بھی تشکیل دے دی گئی ہے، تاکہ حکومت سے اگلے عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے لائحہ عمل طے کیا جاسکے،لیکن حکومت بدلتے حالات میں اپوزیشن سے بات ہی نہیں کرنا چاہتی، وزیر اعظم نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات سیاستدانوں سے ہوتے ہیں،دہشت گردوں سے نہیں،جبکہ پی ٹی آئی قیادت کا کہنا ہے کہ حکمران جتنا مرضی دہشت گرد اور غدار بنانے کی کوشش کرتے رہیں،عوام کبھی نہیں مانیں گے، اگر حکومت اور اپوزیشن قیادت کی جاری تکرار کو دیکھا جائے تو عام انتخابات کا معا ملہ گڑ بڑ ہی نظر آتاہے۔
حکمران اتحاد اپنے مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے باوجو د پرُ اعتماد نہیں ہے کہ انتخابات میں کا میاب ہو جائیں گے،اس لیے ایک طرف مذاکرات سے انکار کیا جارہا ہے تو دوسری جانب ایسے حالات پیدا کرنے کی کو شش کی جارہی ہے کہ انتخابات تعطل کا ہی شکار رہیں،حکومت اپنی کاؤشوں میں مقتدرہ کی حمایت کے ساتھ بڑی حد تک کا میاب بھی دکھائی دیتی ہے،لیکن انتخابات سے زیادہ دیر تک بھاگا نہیں جاسکے گا، انتخابات آج نہیں تو کل کروانا ہی پڑیں گے اور انتخابات سے قبل اپوزیشن سے مذاکرات بھی کر نا ہی پڑیں گے،تاہم اس وقت حکومت کی زیادہ سے زیادہ کوشش ہے کہ پی ٹی آئی پر مزید دبا ڈال کراتنا مجبور کر دیا جائے کہ مذاکرات میں اپنی ساری شرائط با آثانی منظور کروائی جا سکیں،حکومت اپنے ایجنڈے میں کا میاب ہوتی ہے کہ نہیں،آنے والا وقت ہی بتائے گا،لیکن اس ایجنڈے کی تکمیل میں ملک وعوام کے حالات مزید خراب ہوتے دکھائی دیے رہے ہیں۔
حکمران اتحاد کے ایجنڈے میں عوام کہیں نظر ہی نہیں آرہے ہیں، اتحادی اقتدار میں عوام کو رلیف دینے آئے تھے،لیکن یہ جب سے آئے ہیں، عوام کو رلیف دینا تو در کنار،عوام کا جینا بھی مشکل بنا دیا ہے،ایک طرف آئے روز برھتی مہنگائی،بے روز گاری ہے تو دوسری جانب آئی ایم ایف کا سارا بوجھ بھی عوام پر ہی ڈالا جارہا ہے،حکومت کا خیال تھا کہ آئی ایم ایف کی ساری شرائط مان کر امداد مل جائے گی تو اگلے بجٹ میں عوام کو ریلیف دے کر اپنی سیاسی ساکھ بحال کرالیں گے، لیکن آئی ایم ایف نے اگلا بجٹ دیکھنے کے بعد کاعندیہ دیے دیا ہے، اب شنید ہے کہ اگلا بجٹ آئی ایم ایف کی ہی ہدایات کی روشنی میں ترتیب دیا جا رہا ہے، اس صورت میں ظاہر ہے کہ عوام کے لیے ریلیف کی گنجائش کم ہی رہے گی،عوام کو آئی ایم یف کے دباؤ پرنہ صرف ایک بار پھرقربانی کا بکرا بنایا جائے گا،بلکہ ان کی گلے پر کھنڈی چھری بھی چلائی جائے گی۔
عوام پہلے ہی حکومت سے انتہائی نالاں ہیں،اس بجٹ کے بعد عوام کا خود پر قابو رکھنا انتہائی مشکل ہو جائے گا،حکمران اتحاد جتنی مرضی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائیں، جتنا مرضی انتقامی سیاست سے خوف و ہراس پھلائیں،جتنا مرضی اپنے سیاسی مخالفین کو انتخابی عمل سے باہر کرتے رہیں، عوام انہیں ووٹ دینے والے نہیں ہیں،اس کا اظہار حکومتی جلسوں میں عدم شمولیت کرکے بھی دیا جارہاہے،حکمران اتحاد عوام کا موڈ دیکھتے ہوئے انتخابات سے گریز ہی کریں گے،لیکن انتخابات سے راہ فرار کب تک اختیار کی جاسکتی ہے،اتحادی جتنا مرضی انتخابات سے راہ فرار اختیار کر تے رہیں،عوام کا ان کے خلاف غم و غصہ کم ہو نے والا نہیں ہے،حکمران جتنا زیادہ عوام کی عدالت میں جانے سے گریز رہیں گے،عوام انتا ہی ان سے دور ہوتے جائیں گے۔
اب وقت آگیا ہے کہ اہل سیاست ماضی کے واقعات سے سبق سیکھتے ہوئے اپنے سیاسی تماشے بند کریں، ایک دوسرے کو تنقید اور طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے کی بجائے اس کام پر توجہ دیں کہ جس کے لیے انھیں مینڈیٹ دیا گیا ہے،حکمران قیادت کی ساری توجہ سیاسی تماشا گری کے بجائے ان اقدامات کی جانب ہونی چاہیے کہ جن کے ذریعے ملک میں سیاسی و معاشی استحکام لایا جاسکے، اگر حکمران سارا وقت ہی اپنے سیاسی مخالفین کی توڑ پھوڑ اور سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے میں ہی لگے رہیں گے تو پھر ان کی توجہ اہم قومی مسائل پرمرکوز ہو پائے گی نہ ہی عوام کی حمایت مل پائے گی، عوا کی حمایت کیلئے عوام کو رلیف دینا ہو گا،عوام کے پاس جانا ہو گا، عوام سے دور رہ کر عوام کی حمایت کا خواب کبھی پورا نہیں ہو پائے گا اور اس کا خمیازہ آئندہ انتخابات میں بھگتنا ہی پڑے گا۔