حکمران اتحاد بڑے عرصے سے کسی بیانیہ کی تلاش میں سر گرداں تھے،نومئی کے واقعات سے حکومت کے ہاتھ ایک نیابیانیہ آ گیا ہے، اس کا بڑی ہی ہو شیاری سے بھر پور استعمال کیا جارہا ہے، حکومت کی کوشش ہے کہ اِن واقعات کا ذکر اتنا زیادہ کیا جائے کہ باقی معاملات اس میں دب کر رہ جائیں،حکومت بڑی حد تک اپنے مقصد میں کا میاب دکھائی دیتی ہے،ایک طرف ان وقعات کی آڑ میں مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو دوسری جانب عوامی معاملات کو دبایا جارہاہے، تاہم حکومت زیادہ دیر تک عوام کو بے وقوف بنا پائے گی نہ ہی نیا بیانیہ چلائے پائے گی،کیو نکہ عوام جتنا اپنی افواج سے پیار کرتے ہیں،اُتنا ہی مو جودہ حکومت سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
پی ڈی ایم بہت بڑے دعوؤں کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے، مگر اپنے ڈیڑھ سالہ دور اقتدار میں ماسوائے پی ٹی آئی قیادت کو دیوار سے لگانے کے کچھ بھی نہیں کرپائے ہیں،اتحادی حکومت نے جتنی توجہ تحریک انصاف کو کچلنے اور عمران خان پر مقدمات بنانے پر دی ہے، اگراْس سے آدھی توجہ بھی سیاسی و معاشی استحکام لانے پر دی ہوتی،گڈ گورننس پر مرکوز کی ہوتی تو آج حالات ایسے نہ ہوتے، جیساکہ دیکھائی دیے رہے ہیں،ملک کے حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں،لیکن حکمران اتحاد کی سوئی عمران خان پر ہی آٹکی ہوئی ہے،رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خلاف کیس آرمی ایکٹ کے تحت چلایا جائے گا،کیونکہ اْن کی وجہ سے آرمی کی تنصیبات اور شہداء کی یاد گاروں پر حملے ہوئے ہیں۔
حکمران اتحاد ہاتھ آیا کوئی موقع ضائع نہیں کر نا چاہتے ہیں،اس لیے پی ٹی آئی قیادت کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانے اور پابندے سلاسل کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں،ایک طرف حکومت کی مائنس فار مولے کی سوچ کار فرما ہے تو دوسری طرف آئی ایم ایف پاکستانی سیاست کی پیشرفت پر نظر رکھے ہوئے ہے،آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ مضبوط اور دیرپا پالیسیاں ہی اقتصادی استحکام میں کلیدی کردار ادکرسکتی ہیں،لیکن ایک ایسی حکومت جس کی آئینی مدت ہی تین ماہ رہ گئی ہے، وہ مضبوط پالیسیاں کیسے دے سکتی ہے،اس حکومت کو پہلے دن سے ہی سوچ لینا چاہئے تھا کہ اْس کی زیادہ سے زیادہ مدت ڈیڑھ سال ہے، اس ڈیڑھ سال کے عرصے میں کو نسی اقتصادی پالیسیاں بنائی گئیں،سطح زمین پر کچھ نظر نہیں آرہا ہے،جبکہ حکومت آج بھی دعوئیدار ہے کہ ہم نے ملک دیولیہ ہو نے سے نہ صرف بچایا ہے،بلکہ ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن بھی کر دیا ہے۔
اتحادی حکومت جتنے مرضی خوشحالی کے دعوئے کرتی رہے،مگر حقائق بالکل برعکس ہیں، ملک بھر میں آئے روز بڑھتی مہنگائی نے عوام کا جینا حرام کر دیا ہے، اس کا ثبوت وزیراعظم شہباز شریف کا بیان ہے کہ مہنگائی اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ عوام میں جاتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے ہیں، وزیر اعظم نے اپنی شر مندگی کا تو اظہار کر دیا،مگر یہ نہیں بتا یا کہ اْن کے شرمندہ سے عوام کا پیٹ کیسے بھرے گا،عوام کا پیٹ مہنگائی کم کر نے اور رلیف دینے سے ہی بھر جاسکتا ہے،وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پٹرول کی قیمت میں آٹھ روپے کم کرکے بڑا تیر مارا ہے،لیکن اس سے کرائیوں میں کوئی کمی ہوئی نہ ہی اشیاء ضرویہ کی قیمتیں گری ہیں،مارکیٹ میں مہنگائی مافیا کا راج ہے اور انتظامیہ بے بس دکھائی دیتی ہے،حکومت کے اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے والے دکھاؤئے کے اقدامات سے عوامی کو رلیف ملنے والا ہے نہ ہی ایسی تماشہ گری سے عوام کو بہلایا جاسکے گا۔
عوام اہل سیاست کے آئے روز کی محاذ آرائی سے تنگ آچکے ہیں، عوام کو مائنس اور پلس کی لڑائی سے کو ئی سرکار نہیں رہا ہے، عوام اہل سیاست سے بیزار ہو کر ان سے دور ہونے لگے ہیں، اہل سیاست کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اپنے رویئے میں تبدیلی لانا ہو گی اور اس مائنس پلس کی لڑائی سے باہر نکل کر عوام کی عدالت میں جانا ہو گا، اس ناکام مائنس فارمولے سے پہلے جمہوریت اور جمہور کو کوئی فائدہ ہوا نہ ہی آئندہ کوئی فائدہ ہونے والا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ اہل سیاست ایک دوسرے کو مائنس کرنے کی منفی روایت پرعمل پیراں ہونے کے بجائے اس کا خاتمہ کر تے ہوئے مل بیٹھیں اور مذاکرات کے ذریعے کوئی قابل قبول حل تلاش کر لیا جائے، جب تک سیاسی قیادت باہمی مشاورت سے معاملات حل کرنے کے بعد یکسو ئی سے ملکی مسائل کے حل کی جانب متوجہ نہیں ہوں گے،تب تک حالات جوں کے توں ہی رہیں گے،بلکہ مزید ابتری کا ہی شکار ہوں گے،یہ بات جتنی جلد سب کی سمجھ میں آجائے،اس میں ہی سب کی بہتری ہے،بصورت دیگراس راکھ میں دبی چنگاری سے بھڑکنے والی آگ سے کوئی بھی اپنا دامن بچا نہیں پائے گا۔