حکومت نے توشہ خانے کے تحائف کی خریداری سے متعلق اکیس سالہ ریکارڈ سرکاری ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردیا ہے،اس ریکارڈ کے سامنے آنے کے بعدیہ حقیقت بھی سامنے آگئی ہے کہ توشہ خانے کی بہتی گنگا میں حکمرانوں اور اعلیٰ سرکاری حکام میں سے کم وپیش سب ہی نے اپنے ہاتھ خوب دل کھول کر دھوئے ہیں،گویا توشہ خانہ ایک ایساحمام ہے کہ جس میں سب ہی ایک ہی حالت میں نظر آتے ہیں،سیاسی قیادت سے لے کر اہم عہدیدار روں تک کوئی ایک بھی دودھ کا دھولا نہیں ہے۔
اس ملک کی حکمرانوں نے ایک بار پھر ثابت کردیاہے کہ وہ صادق اور امین نہیں ہیں،لیکن سب کچھ کرکے بھی صادق و امین کہلوانا چاہتے ہیں،اس تو شہ خانہ کی لوٹ مار میں سب کا ہی کردار کھل کر سامنے آگیا ہے، حکمران بخوبی جانتے تھے کہ تو شہ خانہ کے ریکارڈ سے کیا سامنے آئے گا،اس کے باوجود تو شہ خانہ کاریکارڈ عام کیا گیا ہے، حکومت کا مقصد سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے لیے گئے تحائف کی تفصیل عام کرکے انہیں مزید بدنام کرنا تھا، لیکن عدالتی حکم نامے نے مجبور کر دیا کہ سارا ریکارڈ سامنے لایا جائے، اس کام میں پی ڈی ایم بری طرح لپیٹ میں آگئی ہے اور اب بڑی بے بسی سے اپنی صفائی پیش کرنے میں کو شاں ہے،توشہ خانہ کا ریکارڈ عام نہ بھی کیا جاتا تو ملکی قیادت کے صادق و امین ہونے کے بارے میں پاکستانی قوم کسی بھی غلط فہمی کا شکار نہیں ہے،
یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ عمران خان کو چور کہنے والے اور توشہ خانہ سے چیزیں لے کر ذاتی استعمال میں لانے کا الزام لگانے والے خود بھی اسی طرح رنگے ہاتھوں نکلے ہیں، تو شہ خانہ کارکارڈ دیکھاجائے تو اس سے پتا چلتا ہے کہ اس میں جسکا جتنا بس چلا ہے،اس نے جی بھر کے اپنے دونوں ہاتھ استعمال کیے ہیں،حکمران جو کئی ماہ سے عمران خان کو چور کہہ رہے تھے اور یہ جانتے تھے کہ ان کے لیڈروں نے بھی توشہ خانہ پر پوری طرح ہاتھ صاف کیے ہیں،لیکن ایک دوسرے کی ضد اور نیچا دکھانے کے چکر میں ان لوگوں نے تمام حدود عبور کر لی تھیں، اب توشہ خانہ کا ریکارڈ سامنے آنے کے بعد مریم نواز کس منہ سے عمران خان کو چور کہہ سکیں گی،جبکہ اس توشہ خانہ حمام میں عوام نے دیکھ لیا ہے کہ سب ہی ننگے اور کتنے گندے ہیں۔
تو شہ خانہ ریکارڈ میں سب کے پول کھل کر سامنے آگئے ہیں،لیکن اس پر شر مندہ ہونے کے بجائے تو جیحات بیان کی جارہی ہیں،اپنی لوٹ مار کا دفع کیا جارہا ہے،توشہ خانہ سے تحائف لینے والوں کا موقف ہے کہ انہوں نے رائج قانون کے مطابق تحائف حاصل کئے ہیں،جبکہ ان کے ہی سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ تو شہ خانہ میں کسی کے باپ کا مال نہیں ہے کہ لوٹ سیل لگواکر خو حاصل کرنے کے ساتھ اپنے دوست احباب کو بھی دلوئی جائے،تو شہ خانہ ریکارڈ میں آنے والوں کی جہاں عدالتی تحقیقات ہونی چاہئے،وہیں ایسی پالیسی بھی مرتب کی جا نی چاہئے کہ جس سے آئندہ اِس مسئلے پر پاکستان کی جگ ہنسائی نہ ہو پائے، امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ایک خاص قیمت تک کہ تحائف لیے اور دیے جاتے ہیں، ہمیں بھی مستقبل میں اِس مسئلے سے ہمیشہ کے لیے بچ نکلنے کی کوئی راستہ نکالنا چاہئے۔
اس حوالے سے لاہور کی معروف دارلعلوم جامعہ نعیمیہ کے مفتیان کرام نے فتویٰ بھی جاری کیا ہے کہ تو شہ خانہ سے تحائف اپنے پاس رکھنے کا قانون غیر شرعی ہے،تو شہ خانہ سے کم قیمت پر اشیاء خریدنا جائز نہیں ہے،کیو نکہ یہ تحائف ملک وقوم کی مانت ہوتے ہیں،یہ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہیں،اس لیے ریاست کے خزانے میں جمع ہوں گے اور انہیں عوام کی فلاح و بہبود پر ہی خرچ ہو نا چاہئے،اگر سر براہان و عہدے داران تحائف کو اپنی ملکیت میں لانا چاہتے ہیں تو ان کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق قیمت اداکرکے لا سکتے ہیں،اس فتوے کے بعد بحیثیت مسلمان سب پر فرض بنتا ہے کہ جن شخصیات کے نام تو شہ خانہ سے تحائف لینے والی فہرست میں شامل ہیں،ان سے حاصل کردہ تحائف کی باقی رقم بھی ریکور کی جائے،یہ سب شخصیات مال دار ہیں اور ان کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے،جبکہ ملک معاشی مشکلات کا شکار ہے اور عوام کا خزانہ بھی خالی ہے، اگرتو شہ خانہ ریکار پر آنے والی شخصیات سر کاری طور پر مقرر کر دہ قیمت ادا کر دیں گے تو یہ علامتی اقدام قوم پر ایک اچھا تاثر چھوڑے گا،اس کے ساتھ آئندہ کیلئے تو شہ خانہ سے سر کاری حکام کے تحائف پر مکمل پا بندی عائد کر دینی چاہئے، اس صورت میں ہی ملک وقوم کی امانت کے تحفظ کے ساتھ عوام کا خالی خزانہ بھی بھرا جاسکے گا۔