ملک میں جاری افراتفری کی وجہ سے پاکستان بھر کی جیلوں میں بند حوالاتیوں اور قیدیوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پی ٹی آئی اور حکومت کی لڑائی کی وجہ سے راولپنڈی، پشاور اور لاہور کی جیلوں میں بند حوالاتیوں اور قیدیوں کو وارنٹی یا ٹرائل کی پیشیوں کے لیئے پولیس کی نفری دستیاب نہیں ہوتی جس کی وجہ سے عدالتی عملہ  ملزمان کو ججز کے بغیر ملے یا دیکھے اگلی تاریخیں دے دیتی ہیں۔ اگر اس دوران ملزمان کو جیلوں سے عدالت تک پہنچا بھی دیا جائے تو ججوں کا اسٹاف ججز کے چیمبر میں جاکر اگلی تاریخ دستخط کروا کر لے آتا ہے جو ایک غیر قانونی عمل ہے۔ جیلوں سے آنے والے ملزمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ججوں کے آمنے سامنے ہوکر اُن کو درپیش مشکلات سے آگاہ کریں مگر ایسا بہت ہی مشکل اور شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ اگر کسی حوالاتی کو ضمانت مل جائے تو عدالتی عملے کی جانب سے اُس کے ورثاء کو خوار کرکے دستخط کروائے جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی جیل میں دو دن گزار کر باہر آئیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ پولیس، ایف آئی اے اور اے این ایف نے کئی افراد کو جھوٹے کیسوں میں ڈال کر جیل بھیجوا دیا ہے جو وہاں سالوں سے پڑے انصاف کی تلاش میں بوڑھے ہو رہے ہیں جبکہ کئی ایک تو اللہ کو پیارے بھی ہو گئے۔ یہ ادارے ملزمان کو پکڑنے اور ایف آئی آر درج کرنے میں سیکنڈ بھی ضائع نہیں کرتے مگر اُس کی رہائی میں چالان پیش کرنے یا ملزم کو عدالت میں پیش کرنے میں مہینوں مہینوں لگا دیتے ہیں۔ کئی جیلوں میں ویڈیو لنک کے ذریعے ججوں کے سامنے پیش ہونے کا نظام متعارف کروایا گیا مگر وہ بھی بری طرح ناکام ہوا۔ ججز جب جیلوں کا دورہ کرتے ہیں تو اُن کے آس پاس جیل وارڈنز کی بھاری سیکورٹی تعینات کر دی جاتی ہے اور جیل انتظامیہ من پسند افراد کو مٹھی گرم ہونے کے بعد ججوں کے سامنے پیش کرتی ہے۔ پولیس، ایف آئی اے یا اے این ایف جب کسی ملزم کو جسمانی ریمانڈ کے لیئے عدالت میں پیش کرتی ہے تو وہ ایجنسی یا ججز کا عملہ جیسا چاہے ویسا ہی ریمانڈ جج سے دستخط کروایا جاتا ہے جس میں کئی ایک ججز کو تو فائل دیکھانے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی جاتی۔ جب دوسرا ریمانڈ ہوتو ملزم پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ اگر جج پوچھے تو یہ مت کہنا کہ مجھ پر تشدد ہوا ہے جس پر ان کو تیسرا ریمانڈ مل جاتا ہے۔ جسمانی ریمانڈ پولیس، ایف آئی اے اور اے این ایف کے لیئے کمائی کا ایک ذریعہ ہے جس میں ملزم کو مہلت دی جاتی ہے کہ وہ ریمانڈ period کے دوران ہی لین دین، ساز باز یا یا ان کی مٹھی گرم کرکے خود کو کیس میں پھنسنے سے بچا لے جس پر کئی لوگ ایسا ہی کرتے ہیں تو اس کا فائدہ ریمانڈ دلوانے والے عدالتی عملے سمیت سب کو ہوتا ہے۔ ایف آئی اے سائیبر کرائم اسلام آباد کی ایک عدالت نے جب ملزم سے پوچھا کہ ریمانڈ کے دوران آپ کو کسی نے تشدد کا نشانہ تو نہیں بنایا تو ملزم نے بتایا کہ مجھے خوب مارا پیٹا گیا جس پر جج صاحب نے چار روز کا مذید ریمانڈ دے دیا جج صاحب کو چاہیئے کہ پہلا ریمانڈ دینے کے بعد ملزم کو اپنے چیمبر میں ون ٹو ون بلا کر پوچھے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تو شاید جج صاحب کو لین دین یا ناجائز ڈیمانڈ کی پوری کہانی معلوم ہو جائے مگر ایسا کوئی جج نہیں کرتا۔۔ اتوارکے روز حکومت چھٹی مناتی ہے مگر جیلوں میں بند لوگ وہ دن سوگ کی طرح مناتے ہیں کیونکہ ان لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اگر اتوار کے دن چھٹی کا سسٹم نہ ہو تو عدالتوں کی جانب سے اُن کے اُمور پر کام جاری رکھا جائے کیونکہ سرکاری عدالتیں دیر سے کھلتی اور جلدی سے بند ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے صرف چند ہی کیسوں پر غور ہوتا ہے۔ عدلیہ کا سسٹم چوبیس گھنٹے چلتا تو ملک میں شاید کچھ انصاف مل پاتا مگر وقت کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے پاکستانی عدالتی سسٹم کی اچھی خاصی بدنامی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان اور چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس کے چیف جسٹسس کو چاہیئے کہ وہ اپنے ماتحت تمام ججز کی باری باری سے ڈیوٹی لگائیں کہ وہ ملک بھر کی جیلوں میں ہفتے میں تقریباً تین دن جاکر وہاں بند قیدیوں اور حوالاتیوں کے مسائل سنیں نہ کہ سپرینڈنٹ کی چائے بسکٹ کھاکر واپس آجائیں۔ سنٹرل جیل پشاور کی طرح ملک بھرکی جیلوں میں روزمرہ ٹیلی فون پی سی اوز کا انتظام کیا جائے تاکہ قیدی اپنوں سے روابط میں رہیں۔ سنٹرل جیل اڈیالہ راولپنڈی میں پی سی او چھوٹا ہونے کی وجہ سے قیدیوں اور حوالاتیوں کی باری ایک ہفتے میں ایک بار آتی ہے وہاں پی سی او پر قیدی آئی ڈی بنانے کے لیئے جیل انتظامیہ کی مٹھی گرم کرنی پڑتی ہے اور صرف پانچ مخصوص نمبروں پر کال کرنے کی اجازت ہے۔ سپرینڈنٹ اڈیالہ جیل اسد اللہ وڑائچ سے بیشتر قیدی خوش بھی ہیں مگر اُن کی جیل میں ہیروئین، چرس اور آئیس کا استعمال بڑھ چکا ہے۔ یہ منشیات قیدی یا حوالاتی نہیں بلکہ جیل کا اپنا عملہ سپلائی کرتا ہے۔ اڈیالہ جیل میں بند غیر ملکی قیدیوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، جنہیں ایک چھوٹے سے ایریا (حفاظتی چکیوں) میں رکھا گیا ہے اور ان کو کال تک کرنے کی اجازت نہیں اور نہ وہ کسی کو خط لکھ سکتے ہیں سپرینڈنٹ جیل یا کوئی اہم شخصیت اگر جیل کا دورہ کرتی ہے تو پہلے سے اعلان کر دیا جاتا ہے جس پر وہ علاقہ صاف کر دیا جاتا ہے جہاں مذکورہ شخصیت نے آنا ہوتا ہے جبکہ عام روز میں جیل گندگی کا ڈھیر بنی رہتی ہے۔ جیل کے ٹوائلٹس گندگی سے بھرے پڑے ہیں جہاں پانی کا خاص انتظام نہیں۔ جگہ جگہ نسوار کی تھوکیں اور سیگریٹ کے خول پڑے ہوتے ہیں۔ چند ماہ قبل چیف جسٹس آف پاکستان نے چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس کے چیف ججوں کے ساتھ سنٹرل جیل اڈیالہ کا دورہ کیا اور سزائیں پوری کرنے والے چوداں قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا مگر اُن میں سے اب تک کسی کی رہائی عمل میں نہیں لائی گئی جو اس وقت اڈیالہ جیل کی حفاظتی چکیوں میں عام قیدیوں سے الگ تھلک بند پڑے ہیں۔ ان میں ایسے قیدی بھی ہیں جو اپنی قید سے دو سے تین سال ایکسٹرا قید کاٹ چکے ہیں مگر چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے باوجود اگر کسی قیدی کو رہائی نہیں مل رہی تو ایسی کون سی طاقت ہے جو اُن کی رہائی روکے ہوئے ہے۔ اڈیالہ کی جیل انتظامیہ اُن چوداں قیدیوں کو جیل کے اندر چھپانے کی بہت کوشش کرتی ہے مگر اُس کے باوجود ان کے زندہ ہونے کی خبریں عام قیدیوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ جیل ذرائع کا کہنا ہے کہ ان میں سے چند قیدیوں کو اس لیئے رہا نہیں کیا جا رہا کہ اُن کو جیل میں ہی مارنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اب چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کو چاہیئے کہ وہ اس بات کا کھوج لگائیں کہ اُن سے بڑی ایسی کون سی عدالت ہے جو ان قیدیوں کی رہائی روکے ہوئے ہے اور اُن کو موت کے گھات اتارنے کی تیاری کر رہی ہے۔ ملک میں کالا قانون ختم کرنے کے لیئے میڈیا اور عوام کو آواز اٹھانی پڑے گی ورنہ ایک دن آپ کو بھی یہی قانون لے ڈوبے گا۔