ملکی مسائل دن بدن گمبھیر ہوتے جارہے ہیں، اس بحرانی کیفیت سے نکلنے کا راستہ سیاسی مکالمہ ہے،لیکن سیاسی قیادت جانتے بوجھتے ہوئے بھی سیاسی مکالمے میں تاخیر کررہی ہے،حکمران اور اپوزیشن قیادت ملکی مفاد میں زبانی کلامی اکھٹے بیٹھنے کی باتیں تو بہت کرتے ہیں، ایک دوسرے کو مزاکرات کی دعوت بھی دیتے ہیں،مگر عملی طور پر آگے بڑھتے ہوئے مل بیٹھنے کیلئے تیار نظر نہیں آتے ہیں،ملکی مسائل حل کرنے کے لئے مذاکرات کی میز پر آنے میں جتنی دیر کی جاتی رہے گی، اتنے ہی معاملات سلجھنے کے بجائے مزید اُلجھتے ہی چلے جائیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ حکمران اتحاد مسائل کء تدارک میں ناکام رہا ہے،اس کے باوجود ماننے کیلئے تیار ہے نہ ہی اقتدار چھوڑنا چاہتا ہے،اس لیے انتخابات کرانے سے گریزاں ہیں، تحریک انصاف جہاں حکمران اتحاد کو انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے نہیں دیے رہی ہے،وہیں عدالت عظمیٰ نے بھی مقررہ وقت پر انتخابات کرانے کا حکم نامہ صادر کیا ہے،تاہم عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے باوجود انتخابات کے انعقاد پر شکوک و شبہات کے سائے ختم ہونے میں نہیں آرہے ہیں، انتخابات سے بچنے کے لیے حکومت کے پاس کوئی آئینی راستہ تو نہیں ہے،لیکن ایسے حالات بنانے کی ضرور کوشش کی جارہی ہے کہ جس کے باعث انتخابات کا التوا کرویا جاسکے،حکومت ایک طرف اپنے سیاسی مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے مقدمات بنارہی ہے تو دوسری جانب گرفتاریاں کرکے خوف و ہراساں پھلایا جارہا ہے،اپوزیشن خوفذ دہ ہونے کے بجائے بھر پور مزحمت کررہی ہے،لیکن اس سیاسی محازذآرائی کے باعث ملک میں انتشار بھڑھتا ہی جارہا ہے،اس سیاسی انتشار کا نتیجہ ہے کہ بیرونی قوتیں پا کستانی اثاثوں پر سوالات اُٹھا نے لگی ہیں۔
حکومت آئی ایم ایف کو منانے میں سر دھڑ کی بازی لگارہی ہے اوراس کی ساری شرائظ بھی مانے جارہی ہے،عوام خدشات کا اظہار کرنے لگے ہیں کہ کہیں آئی ایم ایف سے معاہدے پر اپنے اثاثوں پر کوئی سمجھوتہ نہ کر بیٹھیں،وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کی قومی اثاثوں پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کی یقین دہانی خوش آئند ہے،لیکن اگر ملک میں سیاسی و معاشی عد استحکام کا شکار رہے گا اور ہم کشکول ہاتھ میں لیے در بدر دھکے کھاتے رہیں گے تو امداد دینے والے جہاں تنگ آجائیں گے وہاں مالی معاونت کرنے والے آپکے اثاثوں پر اپنا حق بھی جاتائیں گے،اس لیے ضروری ہے کہ جہاں ملک میں سیاسی استحکام لایا جائے،وہیں معاشی بحران پر بھی مل بیٹھ کر قابو پایا جائے،ملک کے مشکل حالات کا تدارک کسی ایک کی بس کی بات نہیں ہے،اس کیلئے سب کو ایک میز پر مل بیٹھ کر مشترکہ لائحہ عمل مرتب کر نا ہو گا،لیکن اگرایک دوسرے کو گرانے اور دیوار سے لگانے کی روش ایسے ہی جارہی توعالمی قوتیں سب کچھ چھننے میں دیر نہیں لگائیں گی۔
ملک انتہائی مشکل ترین صورتحال سے دو چار ہے،اس میں سیاستدانوں اور اسٹبلشمنٹ کو جہاں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، وہیں اپوزیشن قیادت کو بھی وقت کی نزاکت کا احساس کر نا چاہئے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے دشمن خود ہی بنے ہوئے ہیں، ہم خود ہی اپنے لئے مسائل پیدا کرنے کے ساتھ اس میں بگاڑ پیدا کررہے ہیں،ہم مسائل کو حل کرنے کے بجائے بند گلی میں لے جا رہے ہیں، سول ملٹری تعلقات کے مسائل ماضی میں بھی رہے ہیں،لیکن سیاست میں اداروں پر الزام تراشی مناسب رویہ نہیں، یہ ہمارے ہی ادارے ہیں، ان سے غلطیاں بھی ہوسکتی ہیں، لیکن ہمارے لیے ان کی سالمیت اور خود مختاری انتہائی اہم ہے، ایک دوسرے کو مود الزام ٹھرانے اور تنقید کے نشتر چلانے کے بجائے تمام فریقین کو مل بیٹھ کر معاملات حل کرنا ہونگے،اداروں کو بھی چاہیے کہ سوچیں معاملات کس طرح حل کیے جا سکتے ہیں، ادارے زیادہ دیر تک لاتعلقی کا مظاہرہ نہیں کر پائیں گے،انہیں قومی سلامتی کے پیش نظر معاملات سلجھانے میں معاونت کر نا ہی پڑے گی۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سیاسی تلخیوں کے ماحول میں مکالمے کی پیشکش کسی جانب سے بھی آئے،خوش آئند ہے،وزیر اعظم شہباز شریف اور تحریک انصاف قیادت نے ایک بار پھر قومی مفاد میں مذاکرات کی پیشکش کی ہے،یہ پیشکش الجھے ہوئے سیاسی منظر نامے کو سلجھانے اور ملکی معاملات کو رواں دواں کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے،لیکن اس کیلئے مذاکرات کی پیشکش کو عملی شکل میں بدلنا پڑے گا،حکومت اور اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے سے الجھنے میں وقت گزاری کے بجائے مذاکرات کے ذریعے کسی مناسب حل تک پہنچ جائیں تو اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے،سیاسی قیادت جب ایک دوسرے کو کوسنے اور مود الزام ٹھرانے کے بجائے قومی مفاد کو تر جیح بنا کر سو چیں گے تو سیاسی استحکام کے ساتھ معاشی حالات میں بھی ضرور بہتری آئے گی۔