ملک میں انتخابات کا معاملہ انتہائی شدت اختیار کرتا جارہا ہے،ایک بحران سے مزید کئی بحران جنم لے رہے ہیں،اس صورتحال کے تدار ک میں کووئی ادارہ اپنا کردار ادا کرپا رہا ہے نہ ہی دور تک کوئی ایسی شخصیت دکھائی دیتی ہے،جو کہ متحارب سیاسی قوتوں کو مزاکرات کی میز پر آمنے سامنے بیٹھا سکے اورکوئی درمیانی راہ نکال سکے،حکومت اور اپوزیشن قیادت کی بڑھتی محاذ آرائی سے کسی کے ہاتھ ماسوائے پچھتاؤئے کے کچھ نہیں آئے گا،ہماری سیاسی تاریخ پہلے ہی پچھتاؤں سے بھری پڑی ہے،اس عمل کو شعوری طور پر روکنا چاہئے،کیو نکہ ہماری سیاسی و معاشی زندگی میں مزید کسی پچھتا ؤے کی گنجائش نہیں ہے۔
ملک میں بڑھتے بحرانوں کے تدارک کی سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے،مگرحکومت بحرانوں کاتدارک کرنے کے بجائے بحرانوں میں اضافہ کرنے میں لگی ہوئی ہے،سیاسی بحران آئینی بحران میں تبدیل ہوتاجارہا ہے،لیکن حکمران اتحادکو آئین سے زیادہ اپنے اقتدار کی فکر ہے،اس لیے آئین کو بچانے کے بجائے اپنا اقتدار بچانے کیلئے سب کچھ داؤ پر لگایا جارہاہے،ایک طرف پا رلیمان کو اپنے ذاتی مفادات کیلئے استعمال کیا جارہا ہے تو دوسری جانب اداروں میں تقسیم پیدا کر کے آمنے سامنے لایا جارہا ہے،اس حکومتی رویئے کے باعث جہاں پارلیمان کی بے تو قیری ہورہی ہے، وہیں ادارے بھی کمزور ہورہے ہیں،اس کا حکمران اتحادکو کتنا فائدہ ہوگا،اس کا تو پتہ نہیں،مگر اس سے نقصان ملک وعوام کا ہورہا ہے۔
اتحادی قیادت سیاست نہیں،ریاست کی باتیں تو بہت کرتے ہیں،مگر عملی طور پرریاست کیلئے کوئی قربانی دینے کیلئے تیار نہیں ہیں،سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کیا جارہا ہے نہ ہی معاملات سلجھانے کیلئے جمہوری رویہ اختیار کیا جارہا ہے،اس لیے ہر معاملہ عدالت میں جارہا ہے، عدلیہ بار ہا آپشن دیے رہی ہے کہ سیاسی معاملات سیاسی ا نداز میں مل بیٹھ کر حل کر لیے جائیں،مگر سیاسی طرفین جنہیں اپنی بقا اور ساکھ کیلئے اصلاح احوال کی سب سے زیادہ ضرورت ہے،اس آپشن کو وہی رد کرتے چلے آرہے ہیں،سیاسی فریقین ہی جب بات چیت کی آپشن سے ایسے کترارہے ہوں تو ملک کیسے گمبھیر صورتحال سے باہر نکل سکتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو ملک میں سارے مسائل سیاست کے ہی پیدا کردہ ہیں،اس لیے سیاسی جماعتوں کو ہی انہیں نمٹانا چاہئے،تاہم سپریم کورٹ قرار دیے چکی ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں کچھ نہیں کرتیں تو آئینی مشینری موجود ہے،مگر احسن صورت وہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو مکالمے کی حکمت عملی سے فائدہ اُٹھایا جائے،اس کا سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی گاہے بگاہے اظہار ضرور کیا جاتا رہا ہے،لیکن اس حوالے سے ایک بار بھی کوئی بامعنی قدم نہیں اُٹھایا گیا ہے،اگر بات چیت کا کوئی عمل شروع ہو چکا ہوتا تو غالب امکان ہے کہ آج ہمارے حالات کم از کم ایسے نہ ہوتے کہ ملک میں انتخابات کے انعقاد کا سوال ایک آئینی بحران کا سبب بنا سب کے سامنے کھڑا ہے اور اس بحران کو حل کرنے کے بجائے سب ایک دوسرے کو مود الزام ٹھرانے میں لگے ہیں۔
یہ مسائل عدالتوں میں حل ہوں گے نہ مارشل لاء یاکسی ٹیکنوکریٹ حکومت سے کوئی بہتری آئے گی،ملک کے ھالات کو بہتر بنانے کیلئے حکومت اور اپوزیشن قیادت کو آج نہیں تو کل مل بیٹھ کر معالات سلجھانے ہوں گے،وزیراعظم شہباز شریف انتخابات سے معذرت کرکے جان نہیں چھوڑا سکیں گے،انہیں حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے انتخابات کرانے پر رضامندی کا اظہار کرنا ہی پڑے گا، اگر پنجاب اور کے پی کے میں الیکشن نہیں چاہتے تو پورے ملک میں کرادیں،اس سے کم از کم قوم کی یکجہتی تو متاثر نہیں ہوگی، پی ڈی ایم کب تک اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش رکھتی ہے، اگر حکمراں طبقہ واقعی مکالمے پر سنجیدہ ہوتے تو آج کسی نہ کسی سطح پر بات چیت ہورہی ہوتی، کچھ باتوں پر اتفاق بھی ہوجاتا، لیکن ایک دوسرے کی نفی کرنے کے چکر میں اپنا اور ملک کا بڑا نقصان کرتے جارہے ہیں،حکمران اتحاد کے پاس زیادہ وقت نہیں رہا ہے کہ حالات کا نام لے کر مسائل سے چشم پوشی یاانتخابات سے راہ فرار اختیار کرتے رہیں،انہیں حالات سے راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے اب حالات کا سامنا کرنا چاہئے،اس وقت حالات کا تقاضا تو یہی ہے کہ فوری طور پر عوام سے رجوع کیا جائے،بصورت دیگر عوام خود رجوع کرتے ہوئے انہیں ایوان اقتدار سے اُ ٹھاکر باہر پھنکیں گے۔
ا?ئین قانون اصول و ضوابط کسی چیز کو نہیں مانتی اس کا فیصلہ صرف میاں نواز شریف کا فیصلہ ہے پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتیں کسی ایک نکتے پر متفق ہوجائیں۔ اتفاق سے بھانت بھانت کی ان بولیوں کے درمیان دو توانا اور راست بازی پر مشتمل ا?وازیں اْٹھی ہیں۔ ایک مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی کی ا?واز ہے اور دوسری امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی۔ دونوں نے اتفاق سے ایک ہی بات کی ہے کہ تمام جماعتیں اور ادارے دشمنی کے بجائے سرجوڑ کر ملک کو بچائیں۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ فوج اور عدلیہ کو سیاست میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ موجودہ حالات میں تمام جماعتوں کو ساتھ بٹھانا ناگزیر ہوگیا ہے۔ اور غیر جانبداری سے قومی مفاد اور سلامتی کے لیے مسئلے کا حل نکالنا سب پر فرض ہے۔ اسی طرح سراج الحق نے مزید وضاحت کے ساتھ بات کی ہے اور مسئلے کی جڑ، انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ قومی انتخابات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے تمام پارلیمانی پارٹیوں سے رابطے کیے جائیں گے۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ ایک دوسرے کی نفی کرنے کے بجائے مشترکات کی طرف ا?ئیں۔ عوام مثبت پیش رفت کے لیے ترس رہے ہیں۔ انہوں نے درست توجہ دلائی کہ سیاسی مسائل عدالتوں میں حل نہیں ہوں گے اور مارشل لاء کسی ٹیکنوکریٹ حکومت یا صدارتی نظام سے بھی بہتری نہیں ہوگی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ اب مارشل لا نہیں ا?ئے گا۔ ا?یا تو لوگ ساتھ نہیں دیں گے۔ ویسے تو یہ الگ بحث ہے کہ لوگوں نے مارشل لا کا ساتھ کب دیا۔ ہمیشہ موقع پرست سیاستدانوں نے مارشل لا کی پزیرائی کی اور مفادات سمیٹے۔ مارشل لا تو جب ا?تا ہے اس کا ساتھ فوج ہی دیتی ہے اور کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ حالات کا حوالہ دے کر شہباز شریف انتخابات سے معذرت کررہے ہیں تو وہ حالات کی سنگینی کا ادراک کریں اور سب کو ایک جگہ بٹھائیں۔ اگر پنجاب اور کے پی کے میں الیکشن نہیں چاہتے تو پورے ملک میں کرادیں۔ کم از کم قوم کی یکجہتی تو متاثر نہیں ہوگی۔ پی ڈی ایم کب تک اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش رکھتی ہے۔ بات وہیں پہنچتی ہے کہ اگر یہ حکمراں طبقہ جو کہہ رہا ہے اس میں سنجیدہ ہوتے تو ا?ج کسی نہ کسی سطح پر بات چیت ہورہی ہوتی۔ کچھ باتوں پر اتفاق ہوجاتا لیکن ایک دوسرے کی نفی کرنے کے چکر میں یہ اپنا اور ملک کا بڑا نقصان کرنے جارہے ہیں۔ حالات کا نام لے کر مسائل سے چشم پوشی یا فرار کے بجائے حالات کا سامنا کیا جائے۔ حالات کا تقاضا تو یہی ہے۔