ایران ہمارا ہمسایہ مسلمان ملک ہے۔گذشتہ روز ایرانی بارڈر پر دونوں ملکوں کے سربراہ کی خوشگوار ملاقات ہوئی،ساتھ میں بجلی کے منصوبے کا افتتاح اور تجارتی منڈی کاقیام بھی عمل میں لایا گیا۔طبیعت سرشار ہو گئی۔یہ ان واقعات کا تسلسل ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اب ہواؤوں کارخ بدل رہا ہے۔سعودی عرب،ایران،شام،مشرق وسطیٰ کے ممالک اختلافات بھلا کر مفاہمت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ہم اگر چہ صرف 76 سال کے ہوئے ہیں لیکن ایران جیسا ملک ہزاروں سالہ قدیم ثقافت کا حامل ہے۔ایران،افغانستان،تاجکستان،کرغزستان،آذر بائیجان،ترکی،وسطی ایشیائی ممالک سب باہم ملے ہوئے ہیں۔صرف امن قائیم ہونے کی دیر ہے ایک مضبوط مسلم بلاک وجود میں آجائے گا۔پشاور سے تعلق ہونے کی وجہ سے فارسی بولنے والوں سے شناسائی ہے۔افغان بھائیوں کی دہائیوں سے یہاں قیام کی وجہ سے تاجر حضرات بھی فارسی بولتے،سمجھتے ہیں جبکہ پشاور میں مقیم بعض گھرانے ایرانی پس منظر رکھتے ہیں جن کے گھروں میں آج بھی فارسی بولی جاتی ہے۔پشاور میں قائیم ایرانی ثقافتی مرکز خانہء فرہنگ ادب دوست سرگرمیوں کے لئیے مشہور ہے۔یہاں باقاعدگی سے اہم دینی اور ثقافتی پروگرام منعقد ہوتے ہیں جن میں یہاں کی انتظامیہ بڑی خندہ پیشانی سے سب کا استقبال کرتی ہے۔یہاں کی لائیبریری میں کئی ادبی پروگراموں میں شرکت کا اتفاق ہوا۔اس دوران شیلفوں میں پڑی کتابوں کو بغور دیکھتی۔اکثر دیوان حافظ پر نظر پڑتی۔دیوان حافظ کو صدیوں سے نہ صرف ایران بلکہ بر صغیر میں بھی فال نکالنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔۔پشاور کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے ہزاروں سال سے حملہ آور براستہ طورخم برصغیر میں داخل ہوئے۔مغل بادشاہ اپنے ساتھ ایک عظیم ثقافت بھی لے کر آئے جس کے اثرات ہمارے رہن سہن،لباس زبان،تہذیب پر اب بھی نظر آتے ہیں۔حافظ ہوں یا سعدی شیرازی،مولانا روم ہوں یا شمس تبریز،عبدالقادر جیلانی اور بہت نامور شعرا اور بزرگ ان سب سے ہمارا بڑا مضبوط رشتہ اور عقیدت ہے ہمارے اکثر مذہبی سلسلوں کے آباؤواجداد کا تعلق انہی علاقوں سے تھا۔ان کی وجہ سے بر صغیر میں دین اسلام کی اشاعت و ترویج ہوئی۔شکر ہے کہ دونوں اطراف ماحول میں گرم جوشی پایی جا رہی ہے۔ہم ایک جیسی تہذیب و تمدن کے رشتے میں بندھے ہیں۔پاکستان سے ہر سال ہزاروں اہل تشیع اور اہل سنت عقیدتمند ایران عراق کا سفر کرتے ہیں، مقدس مقامات کی زیارت کرتے ہیں۔حالات بہتر ہونے پر تجارت کے ساتھ ساتھ مذہبی سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔ اور ایکبار پھر ہم جیسوں کو موقع ملے گا،شیراز،سمرقند،بخارا،بلخ دیکھنے کا۔اسی اثنا میں بی بی سی پر حافظ شیرازی پر بہت دل چسپ مضمون پڑھا جو آپ کی نذر ہے
”انڈیا کی معروف فلم ’مغل اعظم‘ کی قوالی ’تری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے‘ سے پہلے کا منظر شاید آپ کو یاد نہ ہو جس میں اداکارہ مدھو بالا یعنی انار کلی اپنی بہن کے ساتھ ایک کتاب سے فال نکالتی نظر آتی ہیں۔
اُن کے فال کے طور پر کتاب میں یہ شعر سامنے آتا ہے:
دل می رود ز دستم صاحب دلاں خدارا
دردا کہ راز پنہاں خواہد شد آشکارا
اس شعر سے پوشیدہ راز کے آشکار ہونے کی جانب اشارہ ملتا ہے اور پھر پوری فلم گویا سلیم اور انار کلی کی محبت کے راز کھلنے کی تعبیر ہے۔
یہ شعر 14ویں صدی کے معروف فارسی شاعر شمس الدین محمد حافظ شیرازی (1315-1390) کا ہے جنھیں ایمرسن جیسے انگریزی کے معروف شاعر نے ’شاعروں کا شاعر‘ قرار دیا تو جرمنی زبان کے شاعر اور فلسفی گوئٹے نے ’لاثانی‘ کہہ کر پکارا۔ گوئٹے تو حافظ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے 200 غزلیں کہہ ڈالیں جسے ’ویسٹ ایسٹرن دیوان‘ کہا جاتا ہے۔ مغرب میں شاید یہ حافظ کا سب سے بڑا تعارف تھا۔
اسی طرح فارسی ادب کو انگریزی میں مقبول بنانے والے ایڈورڈ فٹزجیرالڈ نے حافظ کو ’الفاظ کا بہترین موسیقار‘ کہا ہے۔ان کے کلام کو پسند کرنے والوں میں اور اس سے رہنمائی حاصل کرنے والوں میں جہاں ایک جانب مغل سلاطین، ملکہ وکٹوریا اور ملکہ الزبتھ وغیرہ کا ایک سلسلہ ہے وہیں معروف فلسفی نطشے اور شرلاک ہومز کا کردار تخلیق کرنے والے جاسوسی ناول نگار سر آرتھر کانن ڈائل بھی اُن کے معترف نظر آتے ہیں۔
خود فارسی زبان میں ایک قطعہ ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ہرچند کہ اب پیغمبر نہیں آئیں گے لیکن شاعری کے تین پیغمبر ہیں، ابیات کے فردوسی ہیں، قصیدے کے انوری ہیں اور غزل کے سعدی ہیں تو کسی نے پوچھا کہ تو پھر حافظ کو کہاں رکھیں گے تو جواب دینے والے نے کہا وہ تو ’خدائے سخن‘ ہیں۔
حافظ کے حالات زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں، یہاں تک کہ قطیعت کے ساتھ اُن کی پیدائش کا سال بھی نہیں بتایا جا سکتا لیکن جو کوائف ملتے ہیں ان سے یہ پتا چلتا ہے کہ وہ شیراز میں پیدا ہوئے تھے اور کمسنی میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا۔وہ اپنی والدہ کے ساتھ شیراز میں ہی رہے جبکہ ان کے بھائیوں نے دوسرے مقامات کی راہ لی۔
فارسی شاعری کی تاریخ کی کتاب ’صنادید عجم‘ میں مذکور ہے کہ حافظ کے گھر میں جب فاقے کی نوبت آئی تو وہ خمیر گیری کا کام کرنے لگے اور اِسی افلاس کے عالم میں انھوں قرآن مجید حفظ کیا جس کی وجہ سے وہ ’حافظ‘ کہلوائے۔
ایک جگہ ذکر ہے کہ وہ انتہائی خوش الحان یعنی خوش آواز تھے اور قرآن کی تلاوت مختلف انداز (13 طرح سے)  میں کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے لوگ ان کے بہت گرویدہ بھی تھے۔
چنانچہ اُن کے شاعری میں بھی اچھے انداز میں پڑھنے کی بات آئی ہے۔ ایک غزل کے مقطع میں وہ کہتے ہیں۔
”غزل گفتی و در سفتی، بیا و خوش بخواں حافظ
کہ بر نظم تو افشاند فلک عقد ثریا را”
(یعنی تو نے غزل کیا کہی، تو نے تو موتی پرو دیے، اے حافظ آ اور اچھی آواز میں پڑھ کہ تیری نظم پر فلک ثریا کا ہار نچھاور کرتا ہے۔)
یہ بات عام طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ حافظ کے بعد ایران اور جہاں جہاں فارسی زبان کے اثرات تھے وہاں حافظ کے اثرات سب سے زیادہ نظر آنے لگے۔ لیکن حافظ کے شاعر بننے کے حوالے سے مختلف کہانیاں گردش کرتی ہیں۔
مہدی حسین ناصری نے اپنی تصنیف ’صنادید عجم‘ میں لکھا ہے کہ ’محلے میں ایک بزاز رہتا تھا۔ وہاں شاعری کا چرچا تھا۔ حافظ کو بھی یہ صحبت پسند آئی اور خود بھی نظم کرنے لگے مگر بے تکے اشعار۔۔۔ جن کی وجہ سے خوب بنائے جاتے تھے۔ ایک دن اتنا بنائے گئے کہ دل ٹوٹ گیا۔‘
’بابا کوہی (ایک شاعر) کے مزار پر رات بھر رویا کیے کہ یا تو شعر کہنا آ جائے یا موت آ جائے۔ آخر آنکھ لگ گئی۔ خواب میں امیر المومنین (حضرت علی) کی زیارت ہوئی جنھوں نے بشارت دی کہ مایوس نہ ہو تجھ پر علوم کے دروازے کھل گئے۔ صبح اٹھے تو جو غزل کہی اسے جب مجمعے میں پڑھا تو لوگ حیرت میں پڑ گئے اور سمجھے کہ کسی سے کہلوائی ہے۔ لیکن امتحاناً جو طرح دی گئی اس میں بھی عمدہ شعر کہے تو اُن کا شہرہ ہو گیا اور سلاطین وقت کا تقرب نصیب ہوا۔‘
ایک اور جگہ لکھا ہے کہ انھوں نے ایک بزرگ کے مزار پر چلہ کشی کی جس کے نتیجے میں ان کے اشعار میں گہرائی پیدا ہوئی یہاں تک کہ انھیں ’لسان الغیب‘ یعنی غیبی زبان جس میں غیب کا علم پوشیدہ ہو کہا جانے لگا۔ کسی نے لکھا ہے کہ انھیں چالیس سال کی عمر میں عرفان حاصل ہوا اس کے بعد ہی ان کی شاعری میں وہ بات پیدا ہوئی جس کے لیے وہ آج جانے جاتے ہیں۔
کئی روایتوں میں آیا ہے کہ جہاں حافظ کو ان کے اشعار کی وجہ سے مذہبی حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا تھا وہیں انھیں ان کے مشہور ترین اشعار میں سے ایک کے لیے بادشاہ وقت امیر تیمور کے سامنے حاضر ہونا پڑا۔
ان کا یہ شعر شاید آپ نے سنا ہو؟
”اگر آن ترک شیرازی بدست آرد دل مارا
بخال ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را”
یعنی اگر وہ شیرازی ترک میرے دل کو اپنے ہاتھ میں لیتی ہے یعنی میری محبت کو قبول کرتی ہے تو اس کے گال کے کالے تل پر میں سمرقند اور بخارا کو نچھاور کر دوں۔
اس وقت سمرقند سلطنت تیموریہ کا دارالحکومت تھا اور بخارا ایک بہت ہی پھلتا پھولتا شہر تھا جو سلطنت تیمور کے زیر نگیں تھا۔
تیمور نے حافظ کو بلا کر پوچھا کہ میں نے ہزاروں شہروں کو ویران کیا تاکہ اپنی زادگاہ اور اپنے وطن سمرقند و بخارا کو آباد کروں اور تم ایک خال سیاہ کے عوض انھیں بخش دو گے؟‘
اس کے جواب میں حافظ نے کورنش بجا لا کر کہا: ’بادشاہ سلامت انھی بخششوں کا نتیجہ ہے کہ اس حال میں پڑا ہوں۔‘ تیمور ان کے اس لطیفے سے خوش ہوا اور انھیں انعام و اکرام سے نوازا۔حافظ کی شاعری میں شراب اور رندی و مستی کا جس طرح تذکرہ ہے وہ کہیں اور نہیں ملتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے زمانے میں انھیں اس کی وجہ سے لعنت و ملامت کا بھی سامنا رہا لیکن بعد میں لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ یہ ان کے تصوف کی شان ہے جس میں سارا زور عشق حقیقی کی طرف جاتا ہے اور یہ شراب کی مستی در اصل روحانی ہے۔حافظ کے کلام کو ہر دور میں رہنمائی کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور آج بھی ایسے لوگ ہیں جو کسی مسئلے کے حل کے لیے اس سے رجوع کرتے ہیں۔
دیوان حافظ میں مولانا محمد میں قمر دہلوی نے لکھا ہے کہ حافظ کے تذکرہ نگاروں نے ایسے سینکڑوں واقعات نقل کیے ہیں جن سے فال نکالنے والوں کو حافظ کے کلام سے حیران کر دینے والے اشارے ملے ہیں۔ ایسے ہی چند حیرت انگیز واقعات کا انھوں نے ذکر بھی کیا ہے۔
اس ضمن میں انھوں نے مغل بادشاہ ہمایوں اور جہانگیر کے فال نکالنے کی حکایت بھی لکھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’ہمایوں بادشاہ نے جب ایرانی فوج لے کر ہندوستان پر حملے کا ارادہ کیا تو دیوان حافظ سے فال نکالی جس میں وہ شعر سامنے آیا جس میں حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کا ذکر تھا۔ اور یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ اس حملے کے بعد ہمایوں بھی اپنے تمام بھائیوں کو شکست دے کر ہندوستان کا بادشاہ بنا تھا۔‘ اسی طرح جہانگیر جب بنگال کی مہم پر جا رہا تھا تو اس نے دیوان حافظ سے فال نکالی تو جو شعر سامنے آیا اس میں پیشانی پر تیر لگنے کی بات تھی اور اس مہم میں ان کے مقابل عثمان کی پیشانی پر تیر لگا تھا اور اس کی موت واقع ہو گئی تھی اور جہانگیر کو بنگال پر فتح نصیب ہوئی۔اسی طرح حافظ کی موت کے وقت ہونے والے ہنگامے کو بھی ان کے دیوان کے ایک شعر سے حل کیا گیا تھا۔
حافظ کے انتقال کے بعد ان کے مخالفین نے ان کی ظاہری حالت اور آزاد خیال ہونے کی وجہ سے شور و غوغا کیا اور نماز جنازہ اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفنائے جانے کی مخالفت کی چنانچہ اسلامی عقائد کے سلسلے میں ان کے کلام کا بھی ذکر آیا۔
جنھیں عذر تھا انھوں نے زور دیا کہ وہ حافظ کے دیوان سے اکثر ایسے شعر دکھا سکتے ہیں جو ملحدانہ ہیں اور اس کے ثبوت میں دیوان طلب کیا گیا اور کھولتے ہی جو شعر سب سے پہلے سامنے آیا اس نے تمام بحث کا خاتمہ کر دیا۔ وہ شعر یہ تھا:

”قدم دریغ مدار از جناز? حافظ
کہ گرچہ غرق گناہست میرود ب بہشت”
یعنی حافظ کے جنازے سے گریز مت کر کیونکہ اگرچہ وہ گناہوں میں ڈوبا ہوا ہے لیکن وہ بہشت میں گیا ہے۔
اس کے بعد نماز جنازہ خاموشی سے ادا کی گئی اور جو حافظ چند منٹ قبل بے دین اور ملحد ثابت کیے جاتے تھے لسان الغیب قرار پائے۔