دنیا بھرمیں جب بھی مقدس ایام آتے ہیں تو اشیاء ضروریہ کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں، جبکہ پاکستان میں ہمیشہ الٹی گنگا بہتی ہے،یہاں رمضان المبارک کے مقدس ایام میں بھی تاجر دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کر دیتے ہیں،اس کا اندازہ ادارہ شماریات کے ہفتہ وار اعدادوشمار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، اس کے مطابق ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگائی کی شرح میں 1.80 فیصد اضافہ ہوا ہے، جب کہ سالانہ بنیادوں پر 46.65 فیصد ریکارڈ ہوا ہے،ایک طرف مہنگائی مافیا اپنی من مانیاں کررہا ہے تو دوسری جانب انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے،اس کی رٹ سرے سے موجود ہی نہیں،پرائس کنٹرول کمیٹیاں محض نام کی ہیں،جبکہ اسسٹنٹ کمشنر اپنے دفاتر سے باہر نکلنے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں،اس کے باعث منڈیوں میں دکانداروں نے مرضی کے ریٹ مقرر کر رکھے ہیں، حکومت نے مہنگائی کا سد باب کر نے کے بجائے حاتم طائی کے ریکارڈ توڑنے کے لیے مفت آٹا سکیم نکالی ہے،جو کہ عوام کو رلیف دینے کے بجائے موت بانٹ رہی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ حکمران ہاتھوں میں کشکول تھامے در بدر ہیں،مگر انہوں نے عوام کو بھی لمبی قطاروں میں لگا دیا ہے،حکومتی دعووں کے باوجود ابھی تک کچھ بہتر نہیں ہورہا ہے، مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، مگر حکمران سب اچھا ہونے کی صدائیں لگارہے ہیں،ایک طرف بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے لوگ خود کشیاں کرنے پرمجبور ہو رہے ہیں تو دوسری جانب لوٹ مار میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہر دوسرا تیسرا شخص لٹیرا ہے،اس بے حسی کے ماحول میں جس کا جہاں داؤ لگ رہا ہے،ایک دوسرے کا گلا بڑی بے دردی سے کاٹ رہا ہے، لازم ہے کہ حکومت ان سب کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائے،لیکن حکومت تو خود کو بچانے اور اپنے مخالفین کو دیوار سے لگانے میں ہی لگی ہوئی ہے۔
ملک میں جس رفتار سے مہنگائی بڑھتی جارہی ہے،اس رفتار سے اجرتیں اور تنخواہیں نہیں بڑھ رہی ہیں، فیکٹریاں بند ہورہی ہیں، جو کھلی ہیں، وہاں بھی خام مال نہ ہونے کی وجہ سے کام نہیں ہورہا ہے اور ملازمین کو اب ہفتے میں تین دن چھٹیاں دی جارہی ہیں،بے روزگاری میں مزید اضافے کا خدشہ ہے، کیونکہ کمپنیاں اور ادارے اپنے ملازمین کو رکھنے کے لیے ضروری اجرت ادا کرنے کے قابل نہیں رہے ہیں، ایسے میں سوال ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت کیا کررہی ہے جس کا واضح جواب یہی ہے کہ حکومت گھبراہٹ کا شکار ہے اور اس سے کچھ نہیں سنبھل پارہا ہے،بس صرف عوام کو اعداد وشمار کے گورکھ دھندے میں الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے، ایک طرف جہاں وزیر خزانہ روزانہ کی بنیاد پر نہ سمجھ میں آنے والے اعداد وشمار دے رہے اور روزانہ یہ بتارہے ہیں کہ کہاں سے قرضہ مل رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہونے والا ہے لیکن اس کے برعکس حکومت قرض کے سراب میں پھنسی ہوئی ہے اور اس نے تاحال اپنی گورننس اور اخراجات کو ٹھیک کرنے کے لیے بھی کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ہے،حکومت کو ا نتخابات سے بھاگنے اور آئی ایم ایف کو راضی کرنے سے ہی فرصت نہیں مل رہی ہے۔
حکومت اپناسارا زور آئی ایم ایف سے معاہدے پر لگارہی ہے،جبکہ آئی ایم ایف اپنی سخت شرائط منوانے کے باوجود ٹال مٹول سے کام لے ر ہے ہیں، حکومت پراُمید تھی کہ آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے نویں جائزے کی تکمیل پہلے ہوگی اور اس کے بعد نہ صرف 2.1 ارب ڈالر آئیں گے اور اس کے ساتھ دوست ممالک سے بھی قرض کی فراہمی ہوگی،لیکن آئی ایم ایف کی عہدیدار نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ پاکستان کو معاہدے کی تکمیل کے لیے ان یقین دہانیوں کی ضرورت ہوگی، آئی ایم ایف یک بعد دیگرے اپنی شرائط لگائے جارہا ہے اور حکومت سر جھکائے ان کے احکامات پر عمل پیراں ہے اس کے باعث رمضان کے مقدس مہینے میں بھی حکومت عوام کو کسی قسم کا ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حکمران اتحاد اپنے دور اقتدار میں سیاسی،معاشی اور عوامی طور پر بالکل ناکام رہی ہے،
حکومت نے اب اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے مفت آٹا سکیم کاشوشا چھوڑا ہے،یہ مفت آٹا سکیم سے زیادہ بھکاری بناؤ سکیم دکھائی دیتی ہے، اس سکیم کے تحت ایک طرف غریب عوام کو بھکاری بنا جارہا ہے تو دوسری جانب موت بانٹی جارہی ہے،اس مفت آٹے کی تقسیم کے دوران متعدد اموات ہو چکی ہیں،مگر وزیر اعظم شہباز شریف مفت آٹا سکیم کی تشہیر کیلئے فوٹو سیشن کرانے میں لگے ہوئے ہیں،شیخ رشید کا بھی کہنا ہے کہ وزیر اعظم مفت آٹے کی تقسیم کے فوٹو اخبارت کے فرنٹ پیج پر لگوانے میں لگے ہیں،جبکہ ملک سیاسی عدم استحکام کے ساتھ معاشی دیوالیہ ہونے کے قریب ہے اور جو سوچ رہے ہیں کہ ہم سب کچھ ٹھیک کر لیں گے،وہ ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جارہے ہیں، شیخ رشید کا کہنا بجا ہے،حکومت کو سیاسی تشہیری مہم جوئی کے بجائے سیاسی ومعاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات لیتے ہوئے ایسی پالیسیاں لاگو کرنا ہوں گی کہ جن سے لوگوں کو حقیقی ریلیف مل سکے، حکومت اپنی موثر پالیسیوں کے ذریعے ہی معاشی بحران میں کمی لا سکتی ہے اور اس بات کو بھی یقینی بنا سکتی ہے کہ لوگ اپناوقار اور معیار زندگی باعزت طور پر برقرار رکھ سکیں، ورنہ آنے والا وقت ملک کو انتہائی انارکی طرف لے جائے گا!